Symbol

Symbol
Let there be Peace

Friday 20 June 2014

میری بستی

میری بستی
یا اللہ یہ جہاز کیوں نہیں آرہا؟ لاہورائیرپورٹ پر بار بار ٹائم دیکھتے ہوئے میں یہی سوچتی جا رہی تھی،اس کے علاوہ میں کچھ اور سوچنا بھی نہں چاہ رہی تھی۔ بس جلد از جلد اِس ملک سے نکل جانا چاہتی تھی۔جہاں سکون کا ایک پل بھی نصیب نہیں تھا۔بچے سکول جائیں تو بے چینی،جِن گلیوں میں آدھی آدھی رات تک کھیل کر ہمارا بچپن گزرا تھا انہیں گلیوں میں دن کو بھی بچوں کو نکلنے نہیں دے سکتے تھے
نہ بجلی نہ پانی، نہ دن کو سکون نہ رات کو آرام ۔ ٹی وی لگاؤ تو بے سکونی میں اضافہ، میرا پانچ سالہ بیٹا کہتا " آپ لوگوں نے کام ہی پکڑ لیا ہے ٹی وی لگا لیتی ہیں اور رونا شروع کر دیتی ہیں۔ "پر ہم کریں بھی تو کیا کریں کبھی دہشت گرد حملے کبھی قدرتی آفات سے مرنے کی خبریں اور اُن سب سے بڑھ کر محض اپنے عقائد کی بنا پر سرِعام ظلم اور قتل اور اور۔۔۔۔۔۔
میں ان سب سے دور جانا چاہتی تھی جلد از جلد ،اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے سکون کے لئے اِس قتل و خون سے دور جہاں خود کو مسلمان کہیں اور آزاد بھی رہیں ۔۔۔ایک خوبصورت آزاد زندگی گزارنے کے لئے۔۔۔۔
اُف یہ جہاز کواتنی دیر کیوں ہو رہی ہے؟؟بھائی  سے پوچھا تو پتا چلا کہ ابھی ٹائم ہی نہیں ہوا ۔۔۔میں پھر سوچوں میں کھو گئ۔۔۔۔ یہ میرا ملک ہے میری دھرتی ماں اس کے لئے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دی ہیں پر۔۔
گلستاں کو لہو کی ضرورت پڑی سب سےپہلے ہی گردن ہماری کٹی
پھر بھی کہتے ہیں مجھ سے یہ اہلِ چمن یہ چمن ہے ہمارا تمھارا نہیں
اُف۔۔۔۔نہیں نہیں یہ اب میرا ملک نہیں ابھی کچھ دن پہلے ہی تو ہمارے اتنے پیارے یہاں بے دردی سے شہید کئے گئے تھے۔۔۔۔۔{یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے} میں ایک بار بس یہاں سے نکل جاؤں پھر کبھی لوٹ کر نہیں آؤں گی،مجھے بلکل یاد بھی نہیں آئے گا بس جلدی سے میں ایک بار جہاز میں بیٹھ جاؤں تو سکون ہو۔۔۔۔
ابھی تھوڑی دیر پہلے تقریباً سارا محلہ ہمارے گھر جمع تھا لوگ آنسو بھری آنکھوں سے ہمیں الوداع کرنے آئے تھے،وہاں رہتے ہوئے ہمارے خاندان کو تقریباْ 40 سال ہو گئے تھے ابھی 2سال قبل ہی تو نیا گھر بنایا تھا جس کا ایک ایک کونہ میں نے اپنے ہاتھ سے سجایا تھا آہ میرا گھر۔۔۔
نہیں نہیں مجھے کچھ نہیں سوچنا اللہ تعالٰی اس سے بھی اچھا گھر دے گا انشاءاللہ
آخر خدا خدا کر کے ہماری فلائٹ کا ٹائم ہو گیا،سامان بچے سب کو سیٹ کیا اور اپنی سیٹ سنبھالی اور سکون کا سانس لیا،میری سیٹ کھڑکی کے ساتھ تھی جہاز فضا میں بلند ہوا لاہور کے اوپر گھوم کر چکر لگایا اور مجھے پتا بھی نہیں چلا کے کب آنکھوں سے آنسو بہے کیوں بہے اور میرا دل ۔۔۔۔اُف۔۔۔ یہ پہلی فلائٹ کا خوف نہیں تھا یہ میرے وطن کی محبت تھی کہ میرا دل وہیں رہ گیا میرا سکون کہیں کھو گیا۔۔۔
اب یہاں ہر طرح کا سکون ہے آرام ہے کوئی ڈر نہیں ۔۔۔۔پر آج بھی پاکستان کی خبریں دیکھتے اورسنتے ہیں اور پہلے سے زیادہ روتے ہیں۔۔۔۔
میں کیا کروں کس کس کا درد بھلاؤں ؟کس کس کا نوحہ لکھوں؟ تھر میں بھوک سے تڑپ تڑپ کر جان دینے والوں کا یا فٹ پاتھ پر کیڑے مکوڑوں کی طرح پلنے والی روحوں کا؟ میں کیا کروں تھر کی ماؤں کی سسکیاں مجھے سونے نہیں دیتیں۔میں کیا کروں میرے ملک کے روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے لاکھوں یتیم مجھے سکون کی سانس نہیں لینے دیتے کہ میں کس دہشت گرد کو موردِالزام ٹھرا کر سکون حاصل کروں؟میرے ملک کی میری پاک سر زمین کی بےبس آہیں مجھے ہر پل بے چین رکھتی ہیں میرے پاک ملک کے ناپاک ناخداؤ! وہ بے حسی کی گولی کہاں سے ملتی ہے ؟جو تمھیں گھٹی میں ملتی ہے؟
سال میں ایک دفعہ یومِ عمر منا کر اور عید میلادالنبی کا جلوس نکال کر سڑکوں پر لڑکے اور لڑکیوں کی دھمال ڈلوا کر یا ذاتی دشمنی نکالنے کے لئے کسی پر بھی توہین کا مقدمہ بنوا کر ہر دوسرے پر کفر کا فتویٰ لگا کریہ کس اسلام کی خدمت کر رہے ہو؟
وہ سیدنا عمر جن کو راتوں کو نیند نہیں آتی تھی کہ فرات کہ کنارے کوئی بکری کا بچہ بھی بھوک سے نہ مر جائے۔۔۔۔اُن صحابہ کی ناموس کی حفاظت کے نام پر کتنے بے گناہوں کا خون بہاؤ گے؟
یہ کیسی خدمتِ اسلام ہےیہ کیسی رسول اللہ سے اورصحابہْ رسول سے محبت ہے؟کہ اُنہیں کی ناموس کی حفاظت کے نام پر لاکھوں لوگ مارے جا رہے ہیں اور تم لوگ محض ایک مذمتی بیان ٹی وی پر چلاتے ہو اور سکون سے سو جاتے ہو۔ تم لوگ توہینِ اسلام کے بلکہ توہینِ انسانیت کا اصل مجرم ہو۔۔۔۔
ڈرو اُس دن سے جب کوئی آئین کی شق اور کوئی کرسی تمھیں بچا نہیں سکے گی کہ وہاں کسی کو اثتثنا حاصل نہیں۔۔۔
میرا بچپن جہاں گزرا وہ بستی چھن گئی کیونکر
میری بستی میری خوابوں کی بستی بن گئی کیونکر


Friday 6 June 2014

کچھ لفظ !
تیروں کی مانند ہوتے ہیں،
سیدھا سینے کے پار جاتے ہیں 
کہ سانس لینا بھی دشوار ہو جائے
کبھی سکوت!
ہاں سکوت بھی کبھی
بہت ہی شور کرتا ہے  
ایسی ہلچل مچاتا ہے
کہ نیندیں روٹھ جاتی ہیں
کچھ اظہار ناگوار ہوتے ہیں
کہ کاش کچھ کہا نہ ہوتا 
کاش چپ رہے ہوتے
اور کبھی چپ !
ہاں کسی کی چپ مار ہی دیتی ہے
کچھ تو کہا ہوتا
کچھ تو سنا ہوتا
کبھی اعتبار گناہ ہو جاتا ہے 
کہ کاش کسی پہ کیا نہ ہوتا
اور کبھی 
بے اعتباری عذاب ہو جاتی ہے 
اُف کیوں ہم اس قدر بے اعتبار ٹھہرے 
اے مرے محسن
اے مرے چارہ گر
مجھے اس عذاب سے نجات دے دے