Symbol

Symbol
Let there be Peace

Monday 26 May 2014

مئ ماہِ وفا

مئ  ماہِ وفا

آج ایک اور احمدی شہادت کا رتبہ پا گیا۔ تو میرے ذہن میں مئ کے مہینہ میں ہی گزرنے والے 
ایک سانحے کی یادیں تازہ ہو گئیں۔
پاک مٹی سے بنے ہوئے وہ پاک خو تھے
نما زِ جمعہ کو آئے تھے وہ با وُضوتھے
یہ 28مئِ 2010 جمعہ کا دن تھاجب ہماری 2مساجد میں دہشت گردوں نے حملہ کر کے 100 کے قریب ہمارے پیاروں کو شہید کر دیا۔ خاکسار نے رات کو ہی ڈیوٹی کے لئے درخواست دے دی تھی۔۔شہیدوں کے قافلے کے ساتھ آنے والوں کو پانی پلانے کی ڈیوٹی ۔ساری رات آنکھوں میں کٹی یہی سوچتی رہی کہ میرے تو اپنے آنسو خشک نہیں ہو رہے تو اُن یتیموں اور بیوائوں کی دلجوئی کیسے کر پائوں گی۔صبح گھر سے نکلی تو پورا شہر سوگوار تھا سڑکیں سنسان دکانیں بند کوئی رکشہ والا بھی نظر نہیں آ رہا تھا،یوں لگتا تھا کہ ہر گھر میں جنازہ رکھا ہے۔
ایوانِ محمود پہنچی تو وہاں نقشہ ہی اور تھا۔معلوم ہوا شہیدوں کے قافلے رات سے ہی آنا شروع ہو چُکے تھے ہم نے پانی کی بوتلین سمبھالیں اور ارد گرد نظر دوڑائی مرد عورتیں اور بچے بھی تھے مگر سب پُرسکون،حوصلے میں۔۔۔
اُس وقت ہمیں اُن میں سے کسی کے بارے میں تفصیل معلوم نہیں تھی صرف یہ علم تھا کہ پاک مٹی سے بنے پاک وجودوں کی روحیں سالارِقافلہ {امیر جماعت لاہور} کے ساتھ جنت کے سفر کو روانہ ہو چکی ہیں اور ہم نے اُن کے پاک وجودوں کو عزت واحترام کے ساتھ آخری آرام گاہ تک پہنچانے والوں کی مدد کرنی ہے اور اُن کےپیاروں کو حوصلہ  دینا ہے لیکن یہاں تو معاملہ ہی اُلٹ تھا،ہم جِس کو بھی پانی پلاتے ہوئے کندھے پر ہاتھ رکھتے وہ ہمیں دلاسا دیتی ہوئی نظروں سے دیکھتے اور ہم دل ہی دل میں اپنی آنکھوں میں چھپے آنسوئوں پر شرمندہ ۔
ایک خاتون دونوں ہا تھ جوڑے اپنے ربّ سے کچھ رازو نیاز کر رہی تھیں قریب جا کر معلوم ہوا کہ اُن کے دو جوان بیٹے شہید ہوئے ہیں اور وہ ۔ وہ اپنے خدا سے شکوہ نہیں کر رہی تھیں بلکہ دونوں ہاتھ جوڑے خدا تعالٰی سے التجا کر رہی تھیں"یا اللہ ہماری قُربانیوں کو قبول فرما"اور یہ حال سب کا تھا۔وہاں موجود سب لوگ خاموشی اور حوصلے سے درود شریف اور دعائوں میں مصروف تھے۔نہ کوئی کسی کو حوصلہ دے رہا تھا نا ہی کسی کے گلے لگ کر بین کر رہا تھا۔خدا گواہ ہے کہ اِس میں کوئی مبالغہ آمیزی نہیں ہے۔
خدا تعالٰی کی محبت اور محض فضل تھا کہ ہر دل کو خدا تعالٰی کی محبت نے اپنے حصار میں لیا ہوا تھا۔جو قافلہ آتا ہم اُن کو کرسیاں پیش کرتے پانی پلاتے اور دیکھتے کہ شائد کسی کو کچھ کہنا ہو کسی کو کوئی ضرورت ہو مگر وہاں تو صرف پرسکون خاموشی اور دعائیں ۔
وہ سب لوگ الگ الگ جگہوں سے تھے الگ الگ خاندان اُن کی ذاتیں بھی الگ تھیں اور سوشل سٹیٹس بھی الگ ،لیکن اُن سب کا صبر اور حوصلہ ایک جیسا تھا کیونکہ وہ سب خلافت کی چھائوں کے نیچے ایک جان تھےاحمدی تھے
تھوڑی تھوڑی دیر بعد اعلان ہوتا جنازوں کے لیئے نام بتائے جاتے اُن کے لواحقین جا کر آخری دیدار کرتے پھر جنازہ پڑھا جاتا پھر جو دُلہا اپنے آخری سفر کے لیئے تیّار ہو جاتا اُس کے پیارے اُس کے ساتھ روانہ ہو جاتے پھر اگلا قافلہ۔۔۔
اور یہ سب کچھ خاموشی سے سکون سے انجام پذیر ہو رہا تھا۔ وہاں بہت سے ایمان افروز واقعات بھی ہوئے ۔ نا صرف ربوہ کے باسیوں نیں بلکہ ربوہ کی ہوائوں نے بھی ایک ایک مٹھی مٹی ڈالنے کی توفیق پائی ۔خاکسار کی یہ بات وہ ہی سمجھ سکتے ہیں جو وہاں موجود تھے
ایک واقعہ جو خاکسار کی یاد داشت میں ابھی بھی محفوظ ہے ؛ ایک ایسے خاندان جو احمدی نہیں تھے اُن کا بیٹا جو کچھ عرصہ قبل احمدی ہوا تھا اور اُس وقت جب مسجد میں گولیاں چل رہی تھیں گھر فون کر کے کہا تھا کہ مجھے کچھ ہو گیا تو مجھے ربوہ ہی لے کر جا نا{ اُس وقت خاکسار کو اس بات کا علم نہں تھا} تو واقعہ یوں ہے کہ ایک مرد دو خواتین اور ایک لڑکی  اندر آئے مرد اُن کو حوصلہ دے رہا تھا کہ" فکر ناں کرو یہاں سب انتظام ہوگا ان کو سب پتا ہے "
مرد تو مردوں کی مخصوص جگہ پر تشریف لے گئے خاکسارنے خواتین کو کرسیاں پیش کیں پانی دیا ایک خاتون غم سے زیادہ نڈھال تھیں خاکسار نیں سوچا اِن کا بیٹا ہو گا شائد اور اُن کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا خاتون نے میری جانب دیکھا اور یوں گویا یوئیں " میرا بھانجا تھا ، پھر اُن خاتون کی طرف اشارہ کیا جو کافی حوصلے میں تھیں اور بولیں "اس کا بیٹا تھا ایک ہی بیٹا اور بیٹی ، ڈاکٹر بن رہا تھا ۔ خاکسار نے بے اختیار امڈ آنے والے آنسوئوں پر قابو پاتے ہوئے اُن خاتون کو دیکھا تو والدہ بڑے فخر سے بولیں "تین گولیاں کھائی ہیں سینہ پر" اور خاکسار کے لئے وہاں کھڑا رہنا ممکن نا رہا۔
تو آج جب کہ ہم سب پریشان ہیں آنکھوں سے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہےتو خاکسارکو تصور میں ڈاکٹر مہدی صاحب کے بچے اور بیوی اور خاندان کے باقی افراد حوصلے اور صبر سے بیٹھے نظر آ رہے ہیں۔  جو تعزیت کرنے آنے  والوں کو حوصلہ دے رہے ہیں۔۔۔
تو ظالم حکمرانوں اور نفرت کے اعلانات کرنے والے مولویو تم ہار گئے ناکام ہو گئے شہیدوں  کی بیوائوں اوریتیموں نے تمھیں ہرا دیا تم اِس دنیا میں بھی نا کام اور نامراد رہے اور آئندہ زندگی میں تو ناکامی تمھارا مقدر ہے ہی،تم اِس دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہو گے اور ہو رہے ہو اور آخرت میں بھی، کہ بہت سے بے گناہوں کا خون تمھارے سرہے۔
اللہ تعالیٰ کی پکڑ آ چکی ہے جو تمھیں ٹکڑے ٹکڑے کر رہی ہے اور جلد ہی وہ دن آنے والا ہے کہ وہ تمھیں پیس کر رکھ دے گااور توبہ کے تمام دروازے تم پر بند کر دیے جائیں گے یہ خدا کے پیارے کی دعائیں ہیں ۔ خدا کے پیارے کی آواز ہے اور خدا تعالیٰ کا وعدہ جو ضرور پورا ہو گا شہیدوں کا خون کبھی رائگاں نہیں جائے گا اور یہ ہمارا یقین ہے کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام ہی دنیا پر غالب آئے گا ۔اور تم لوگ جو دجّال کے حقیقی نمائندے ہو کہ تمھاری دائیں آنکھ یعنی دین کی آنکھ اندھی ہو چکی ہے اِس دنیا سے مٹا دئے جائو گے انشاءاللہ
کرو تیّاری ، بس اب آئی تمھاری باری
یوں ہی ایّام پھرا کرتے ہیں باری باری
ہم نے تو صبرو توکّل سے گزاری باری
ہاں مگر تم پہ بہت ہوگی یہ بھاری باری
کلامِ طاہر
                                                     


Friday 23 May 2014

no life with out Khalifa

اسلام علیکم 
یہ نظم پوسٹ کرنے سے پہلے خاکسار کچھ عرض کرنا چا ہتی ہے۔ یہ نظم خاکسار نے خلافت کی محبت کے شوق میں لکھ تو ڈالی مگر بہت ڈرتے ہوےَ کہ کہیں محبت کے جوش میں کوئ گستاخی نہ کر بیٹھوں۔ خاکسار کو اعتراف ہے کہ خاکسار شاعرانہ تکلفات سے نا بلد ہے اور جہاں قلم کا بانجھ پن ختم ہوا وہاں الفاظ نے ساتھ چھوڑ دیا۔ باقی سب باتیں اضافی ہیں  صرف ایک بات کہ : ہمیں خلافت سے عشق ہے۔

مجھ کو تو ہے  بس  تیری  ہی  دید کی  تڑپ
حسیں ہونگے ہزاروں،ہزاروں سے مجھےکیا

اک خواب تھا دیکھا کہ میرے سر پہ تیرا ہاتھ
کافی ہے یہ سہارا، سہاروں سے  مجھےکیا

دن گنتے ہیں روز کہ، کب آپ  پدھاریں؟
ہیں اپنی بہار آپ ، بہاروں سےمجھےکیا

ہے مجھ کوتڑپ دیکھوں تیری آمد کا نظارہ
ہیں اور بھی لیکن اُن،نظاروں سے مجھے کیا

مولا میرے ، رکھنا خلافت  کو سدا قائم
جب تیری شہادت ہےتو،شراروں سےمجھےکیا

Friday 16 May 2014

چلو سکھ کو عام کریں۔۔۔

چلو سکھ کو عام کریں۔۔۔

روز روز اِک نیا تماشا
ہر کسی کو بد نام کریں۔
جو چاہت کا اظہار کرے
اُس کو ہی دشنام کریں۔
اپنا دکُھ بس اپنا ہی غم
باقی سب کو بس پرنام کریں۔
جس سے ہمیں ہو کام کوئ
بس اُس کا ہی کام کریں
خون پسینہ کسی کا بہا ہو
ہم اپنا ہی نام کریں۔
ہمارا ہے ہر کام ہی اچھا
صبح کریں یا شام کریں۔
مومن تو بس ہم ہی ہیں
کفر کا فتویٰ عام کریں۔
یہ سب با تیں غلط ہیں توپھر
آوسب مل کر اک کام کریں۔
اک دوجے کے دکھ سکھ بانٹیں
پیار کو دنیا میں عام کریں۔
ایک ہے مالک سب کا داتا
اسی کا ذکر ہر گام کریں۔
حبیب ہمارا خدا کا پیارا 
درود اُس پر صبح شام پڑھیں۔
اِبلیس ہمارا ازل سے ہے دشمن
ہر حملہ اُس کانا کام کریں۔
سُکھ ہی سُکھ بس ہر پل بانٹیں
دُکھ کو کبھی نہ  عام کریں۔

Thursday 8 May 2014

پیارا خدا

خداایک پیارا خزانہ
خدا ایک پیارا خزانہ ہے
ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے
ہماری ا علی لذات ہمارے خدا میں ہیں
یہ الفاظ خدا کہ ایک بہت پیارے کے ہیں۔جن کو ہم سنتے اور سر دھنتے ہیں پر ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو کبھی ان الفاظ پر غور نہیں کرتے، اور کبھی اس  پیارے خزانے کو  تلاش کرنے کی کو شش نہیں کرتے ۔
دنیاوی  خزانوں کو حاصل کرنے کے لیئے ہم دن رات ایک کر دیتے ہیں مگر اصل خزانے کی طرف ہم دھیان ہی نہیں دیتے کہ وہ کتنا خوبصورت اور کتنی خوبصورتیاں اپنے اندر سمیٹے ہو ئے ہے ۔
فانی دنیا کے فائدے اور مزے بھی فانی ہیں اور ہمیں اصل سے بہت دور لے جاتے ہیں،جبکہ وہ کہتا ہے تم میری طرف ایک قدم بڑھائو میں تمہاری طرف دو قدم بڑھائوںگا۔تم میری طرف چل کر آئو میں تمھاری طرف دوڑ کر آئوں گا۔کتنا آسان ہے اس خزانے کو حاصل کرنا ،  مگر ہم اس دنیا کے پیچھے لگے ہوئے ہیں جس کی طرف اگر ہم دوڑ کر جائیں تو وہ دگنی رفتار سے ہمارے آگے دوڑتی ہے۔وہ دنیا جو اکژہمیں دکھوں کے جہنم کے سوا کچھ نہیں دیتی۔تو ہم اپنی بہشت چھوڑ کر جہنم کا انتخاب خود کرتے ہیں۔
دنیاوی مزوں میں سے آپ کو کوئی بھی مزا خواہ کتنا ہی پسند ہو اور کتنا ہی کھا لیں وہ تھوڑی دیر کے لئے ہی رہتا ہے پھر اس کا اثر ختم ہو جاتا ہے۔ایک ذائقہ ہے خدا کی محبت کا جس کو ایک دفعہ چکھ لیں اس کا اثر کبھی زائل نہیں ہوتا،
یہ بات صرف وہ ہی سمجھ سکتا ہے جس نےیہ مزا چکھا ہو۔
تو دوستو!اس بہشت کو،اس خزانے کو اور خدا تعالی کی محبت کو پانےکے لئے پہلے اپنےدل میں اس کی محبت پیدا کرنی ہو گی جس کے لئے ضرورت ہے اسی پیارے مہربان خدا سے دعائیں مانگنے کی ،اس کے احکامات پرعمل کرنےکی۔
تو پیار کریں خدا سے ،خدا کے پیاروں سے اور اسی سے مدد چاہیں۔
خدا تعالی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم اسی دنیا میں بہشت کے نظارے دیکھنے والے بنیں۔آمین


کیوں؟؟

کیوں؟
درد بے آواز کیوں ہوتا ہے؟
خواب نا رسا کیوں ہوتا ہے؟
خیال بے مہار کیوں ہوتا ہے؟
انسان با اختیار کب ہوتا ہے،
پھر بے اختیار کیوں ہوتا ہے؟
آگہی گناہ کیوں ہو جاتی ہے؟

محبتیں مکمل کیوں نہیں ہوتیں؟

منزل پر پہنچ کر بھی ۔۔
خواہشِ سفر کیوں نہیں جاتی؟؟؟


لکھنے کا قرض

لکھنے کا قرض

مجھے لکھنے کا حکم ہوا ہے!
تو سوچ رہی ہوں۔۔۔۔۔
کیا لکھوں؟؟
کیسے لکھوں؟؟
میرے دامن میں تو!!
چند مردہ خیالات کی بھٹکتی ہوئی روحیں،
کچھ بے جان لفظ جو کبھی لکھے نہ جا سکے،
کچھ بھٹکتے شعر جن کو پذیرائی نہ مل سکی۔۔۔
لکھوں تو کیسے لکھوں ؟
لکھوں تو کس کو لکھوں؟
کن ان لکھے الفاظ کا قرض پہلے ادا کروں؟
کہ سود بہت بڑھ گیا ہے۔
اور میرا قلم بانجھ ہے۔