Symbol

Symbol
Let there be Peace

Wednesday 10 June 2015

دستورِ زباں بندی

کچھ دن گزرے ایک شیعہ بہن کا بلاگ پڑھا بہت تکلیف محسوس ہوئی کہ ہم پر بھی نفرتوں کا وہی دور گزرا بچپن سے لے کر ابھی تک ۔۔اُن سسٹر سے تکلیف شئر کی تو بڑی شفقت سے فرمانے لگیں کہ ہاں یہ پاکستان میں تمام "اقلیتوں" کا مسئلہ ہے ،اُس کے بعد بہت دیر تک خاکسار یہ سوچتی رہی کہ یہ کیسا مسلمان ملک ہے جہاں مسلمان ہی اقلیت ہیں ۔۔بجائے اِس کے کہ یہاں مسلمان اکثریت آباد ہوتی یہاں مسلمان چھوٹی چھوٹی اقلیتوں میں بستے ہیں ۔۔۔۔پھر تو یہاں پر زیادہ امن ہونا چاہئے تھا کیونکہ اسلام کے مطابق اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت تو حکومت پر عائد ہوتی ہے۔۔۔لیکن شائد ہماری حکومتوں کی ذمہ داریاں کچھ اور ہیں اپنی اپنی ذات اپنا خاندان یا اپنی سیاسی مجبوریاں ۔۔۔یہی حال عام عوام کا ہے ۔۔۔بہر حال یہ خاکسار کا  موضوع نہیں ہے۔۔خیر تو میں ذکر کر رہی تھی شیعہ بہن کا تو اُن کے بلاگ کا اور کچھ ارد گرد کے حالات کا اثر ہوا کہ خاکسار نے کچھ ٹویٹس میں کچھ ثبوت کے ساتھ چھوٹے موٹے جماعت احمدیہ کے ساتھ ہونے والے مظالم کا ذکر کردیا ۔۔۔ارے یہ کیا ایک غیر سیاسی بھائی کی طبع نازک پر بہت ناگوار گزرافرمانے لگے کہ "تم لوگ ملک اور اسلام کے خلاف سازشیں کیوں کر رہے ہو؟؟ پاکستان اور اسلام کو بدنام کیوں کرتے ہو؟؟" ۔۔۔یعنی اگر آپ اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا ذکر کرو تو یہ ظالم کے خلاف سازش ہے!! اور ظلم کی بدنامی ہے !! اناَّ لله وانَّا اليه راجعون
یہ کیسا دستورِ زباں بندی ہے تیری محفل میں ؟؟
موصوف مزید فرمانے لگے کہ پاکستان میں کیا تکلیف ہے تم لوگوں کو ؟؟آرام سے تو رہ رہے ہو!! (یعنی جو زندہ ہیں اُن کو احسان مند ہونا چاہئے کہ ابھی تک جیسے تیسے کرکے سرکاری مسلمانوں نے زندہ چھوڑا ہوا ہے زندگی چاہے جیسی بھی ہو !! ) تو
 بہت سے واقعات ذہن میں ایک فلم کی طرح گزرنے لگے جن کے لئے کسی حوالے یا ثبوت کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ سب کسی نہ کسی طرح میری ذات سے جُڑے ہوئےہیں
مجھے یاد ہے جب پانچویں کلاس میں پڑھتی تھی سکول کا سارا کام کرنے کے باوجود سزا کا ملنا (گھر میں امی میرے ہاتھوں اور کمر پر نشان دیکھ کر رونے کے علاوہ کچھ نہیں کر پاتیں کہ گاؤں میں اور کوئی سکول نہیں تھا اور شکایت کرنے پر ظلم میں اضافہ ہونے کا خدشہ )کلاس میں سب سے اچھی اسٹوڈنٹ ہمیشہ استانی کے زیرِ عتاب رہتی قصور مرزائی (احمدی)ہونا ساتھی بچیوں کی نفرت الگ اور ٹیچر کے ظلموں کی داستان الگ جو کبھی نہیں بھول سکتی اُس وقت پانچویں کے سینٹر پر امتحان ہوتے وہاں نگرانی کسی اور گاؤں کی استانی کر رہی تھیں میرا پرچہ دیکھ کر بہت متاثر ہوئیں اور لے کر باقی استانیوں کو دکھانے لے گئیں بس پھر کیا تھا میری  مِس نے مجھے ایک بھی پیپر ڈھنگ سے نہ کرنے دیا اور مجھ سے باقی لڑکیوں کے پرچے حل کروائے اور رزلٹ کا اعلان کرتے وقت پہلی پوزیشنز بھی انہیں لڑکیوں کی اعلان کردیں اور رزلٹ شیٹ غائب کردی ۔یہ سب محض احمدیت سے نفرت تھی ۔۔ گاؤں کا ایک شریف چوہدری جس کی شرافت اور سچائی کے اپنےغیر سب گواہ تھے یہاں تک کہ اپنے نسل در نسل ہونے والے جائداد کہ جھگڑوں میں جہاں نوبت قتل و غارت تک پہنچی ہوئی تھی اُس میں محض اُس کو ثالث بنانے پر دونوں فریق راضی ہو جاتے ہیں اور اُس کے وعدے پر دونوں صلح کر لیتے ہیں ،جب گاؤں کی مسجد میں اذان نہ ہونے کے سبب فرطِ جذبات میں آکر تکبیربلند آواز میں پڑھتا ہے تو مسجد کے باہر وہی لوگ اُس کا گریبان پکڑنے کو تیار کھڑے ہیں اور آئندہ تکبیر اونچی آواز میں نہ کہنے کی تنبیہ کرتے ہیں مجھے اِس لئے پتہ کہ وہ چوہدری میرے والد صاحب مرحوم (اللہ تعالی انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ) تھے ۔۔ 
ایک ہونہار سٹوڈنٹ جس نے اپنے مستقبل کے بڑے اچھے اچھے خواب دیکھ رکھے ہیں سائنسدان بننے کی آرزو اور صلاحیت رکھتا ہے میٹرک کے امتحانوں سے کچھ دن پہلے اُس کے کلاس فیلوز مولویوں کی مدد سے اُس پر تبلیغ اور پمفلٹ کی تقسیم کا جھوٹا مقدمہ بناتے ہیں اور وہ جو ابھی تک اپنی ماں کے بازو پر سر رکھ کر سوتا تھا اُس کو عدالت میں بیڑیاں پہنا کرلایا جاتا ہے جو کبھی عام حالات میں چھٹیاں گزارنے بھی اکیلا کہیں نہیں گیا تھا عید کا دن بھی جیل میں گزارتا ہے قصور اُس کا محض احمدی ہونا اور وہ کوئی اور نہیں میرا چچا زاد بھائی تھا ۔
زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے ہاسٹل کا قصہ سُن لیجئے رات کا وقت لائٹ گئی ہوئی ہےکہ اچانک ایک نوجوان خوبصورت مسحور کُن آواز میں تلاتِ قرآنِ کریم شروع کردیتا ہے ارد گرد کے نوجوان آواز کی  طلسم میں آہستہ آہستہ وہاں اکٹھے ہو جاتے ہیں اور حیران ہیں کہ اتنی خوبصورت تلاوت کون کر رہاہے کہ اچانک لائٹ آجاتی ہے ۔۔۔ارے یہ کیا یہ تو وہی مرزائی کافر ہے جِس کا جینا حرام اور جس کا داخلہ ہم نےمیس میں بند کیا ہوا ہے جو ڈائننگ حال میں داخل ہو تو مسلمانوں کے ایمان کے ساتھ ساتھ ڈائننگ حال بھی پلید ہو جاتا ہے ۔۔سب بڑبڑاتے کوستے اپنے اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں۔۔۔وہ لڑکا خاکسار کا چھوٹا بھائی تھا 
 جو ہے خدا کا آدمی اسکی ہے سلطنت الگ"
ظلم نے ظلم سے اگر ہاتھ ملا لیا تو کیا
 عبید اللہ علیم" 
تو یہ چند واقعات ہیں جو خاکسار نےیادوں کے جھروکوں میں سے نکال کر یہاں بیان کئے ہیں ورنہ خاکسار کی سات سالہ ہاسٹل کی زندگی جہاں آپ اکیلے احمدی ہوں وہاں ہر دن کا ذہنی ٹارچر بیان ہی نہیں کیا جا سکتا۔۔۔اور یہ بھی خاکسار نے کوئی ہمدردیاں سمیٹنے کے لئے نہیں لکھا محض اس لئے کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ "تم لوگوں کو کیا تکلیف ہے یہاں " محض ہلکی سی جھلک ہے یہ ۔۔۔
ورنہ ہم تو اپنے غم و الم کی فریاد محض اللہ تعالی سے ہی کرتے ہیں اور یہ بات میں تب بھی جانتی تھی جب ابھی میں درد کا مطلب بھی صحیح سے نہیں جانتی تھی ۔۔۔مجھے یاد ہے جب ضیالحق نے اپنا اسلام نیا نیا رائج کیا تھا اور احمدیوں پر زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کا حق بھی چھین لیا تھا اُس وقت میں بہت چھوٹی تھی مجھے نہیں پتہ تھا کہ جب ہم جمعہ پڑھنے جاتے ہیں تو امام صاحب اور مقتدی سب مسلسل کیوں سسکیاں لیتے رہتے ہیں ۔۔نماز میں کھڑے ہوتے ہی سب کی چیخیں کیوں بلند ہو جاتی ہیں سب کی نماز محض آنسو ہی کیوں بن گئی ہے ، سب روتے اور خاکسار بھی روتے روتے سجدوں میں اللہ تعالی سے فریاد کرتی رہتی کہ سب کی تکلیف دور کر دے مالک ۔۔۔تو مسجد سے باہر کھیلنے والے دوسرے مسلمان بچے مجھے پوچھتے کہ تم لوگ نماز پڑھتے ہوئے اتنا روتے کیوں ہو تو میں جواب دیتی "ہم اپنے خدا کے سامنے ہی روتے ہیں کسی اور کے سامنے تو نہیں" تو پیارے قارئین
اگر ہم کبھی آواز اُٹھائیں تو اُس کا مقصد محض یہ ہوتا ہے کہ ظالم کو احساس ہو سکے کہ وہ ظلم کر رہے ہیں غلط کر رہے ہیں شائد اس طرح وہ ظلم سے باز آجائیں ۔۔۔
ہم اِن دنیاوی خداؤں سے کبھی انصاف کی نہ ہی امید رکھتے نہ ہی بھیک مانگتے کہ
ہمیں یقین ہے اوپر بھی اک عدالت ہے 
اُسی کے فیصلے چلتے ہیں اور چلنے ہیں
خدا تعالی کی قائم کردہ جماعتوں کو نہ تو دنیاوی طاقتیں مٹا سکتی ہیں نہ اُن کی ترقیات روک سکتی ہیں محض ظلم کر سکتی ہیں ۔۔۔اور ہم تو خدا تعالی کے فضل و کرم سے دن بدن خدا تعالی کے فضلوں کے نظارے انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی دیکھتے ہیں یہ ظلم و نفرت کے قصے تو اُس کے مقابلے کچھ بھی نہیں جتنا پیار ہمارا خدا ہم سے کرتا اور جتنا فضل  اُس نے ہم پہ کیا اور مسلسل کرتا جا رہا الحمدللہ ۔۔ہم تو صرف لوگوں کو اُن کے غلط رویوں اور ظلموں کا احساس محض اُن کو گناہ سے بچانے اور برائ سے روکنے کی خاطر اور سچ بتانے کی خاطر کرتے ہیں ۔۔ اور یہی حقیقت ہے ۔۔۔
اللہ تعالی سب کو سچ سننے سمجھنے اور اُس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے