Symbol

Symbol
Let there be Peace

Wednesday 26 November 2014

جنونِ حکومت

مندرکو گراؤ ، یا مسجد کو جلاؤ
گھروں کو گھیرو، قبروں کو اکھیڑو
بس "بلاسفیمی" کا الزام لگاؤ 
زندہ جلاؤ یا خوں میں نہلاؤ۔۔۔
کوکھ میں پلنے والوں پریا
بھوک سے مرنے والوں پر 
یتیموں پر ، بیواؤں پر
مظلوموں خاک نشینوں پر 
اللہ کےمتوالوں پر یا 
کلمہ گو انسانوں پر
اس ملک میں بسنے والوں پر،
پر نچلے طبقے والوں پر
تم جو جو ظلم بھی ڈھاتے جاؤ  
"قانون حفاظت کرتا ہے"۔۔۔
ہے فکر تمہیں کِس بات کی یاں
جذبے کی بات کو چھوڑو یہاں ۔۔۔
بس چہرے بدلتے رہتے ہیں 
اور "جنون حکومت کرتا ہے"

Wednesday 12 November 2014

میں صدقے قربان میرا سوہنا پاکستان

اوہو !! اتنی لمبی لائن !! کتنا رش ہے یہاں!! یہی سوچ رہی تھی کہ اچانک پاکستان یاد آگیا وہاں اگر اتنی دیر تک ایک ہی جگہ کھڑا رہنا پڑتا وہ بھی گاڑی میں اور گرمی میں تو بہت سے لوگ اب تک گاڑیوں سے باہر آچُکے ہوتے اپنے آگے والی گاڑی کو صلواتیں سناتے ہارن پر ہاتھ رکھ کر اٹھانا بھول جاتے ۔۔۔یا کم از کم شیشہ نیچے کرکے ہے ارد گرد والوں کو کوستے ۔۔۔پتہ نہیں اِس ملک کے لوگ کس مٹی سے بنے ہیں سب اتنے سکون سے بیٹھے ہیں جیسے زندگی کا مقصد ہی بس گاڑی چلانا ہے ۔۔۔اور ہارن تو بس تب بجایا جاتا ہے جب کسی کو اُس کی غلطی کا احساس دلانا ہو وہ بھی بس ایک دفعہ ہلکا سا اور زیادہ تر تو چھوڑ ہی دیا جاتا ہے اتنی سُستی کے ہارن بجانا بھی مشکل ۔۔۔
صبح گھر سے نکلتی ہوں تو مین سڑک پر پورا شہر اُمڈا آتا ہے ۔۔پر اپنا حق چھوڑتے ہوئے ارد گرد سے شامل ہونے والی ٹریفک کو اتنے آرام سے رستہ دے دیتے ہیں اور ہر بندہ ایک دوسرے کا اس قدر مشکور ہو رہا ہوتا ہے جیسے سڑک دوسروں کی ملکیت ہو اور اُن کی مہربانی کہ ہمیں چلانے کی اجازت دی ۔ پاکستان میں کوئی ٹیکس دے نہ دے لیکن سڑک پر یوں گاڑی چلاتے ہیں کہ جیسے سڑک اُن کے ابا کی ہو اور دوسرے کون ہوتے ہیں کہ بغیر اُن کی مرضی کے ڈرائیو کریں ۔۔مجھے محسوس ہوتا ہے اِس رویے کے پیچھے ہاتھ، گھر سے رخصت کرنے والی ماؤں اور بیگمات کا ہے یا تو وہ پیچھے پھر پھر کر ناشتہ کراتی ہیں کہ دماغ ساتویں آسمان پر پہنچ جاتا ہے ۔۔اور اگر نہیں پوچھتیں تو پارہ ہائی ہوجاتا ہے تو اثر تو سڑک پر ہی نکلے گا ناں ۔۔۔یہاں بھاگم بھاگ خود ہی تیار ہوئے بچوں کو تیار کیا ناشتہ کیا کیا نہ کیا نہ کیا ۔۔۔تو اکڑ اور گرمئ دماغ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔۔۔۔
وہاں اکثر لوگ ضروری کام سے ویلے ہوتے ہیں اور ہمیشہ جلدی ہوتی ہے کچھ نہ کرنے کی ۔۔۔یہاں (حالانکہ گورنمنٹ فارغ رہنے کے بھی پیسے دیتی ہے) ہر بندہ ضروری کام سے جا رہا ہوتا ہے لیکن سکون سے ۔۔کبھی کبھی تو میری (نئی ڈرائیور) پاکی روح بھی بے چین ہو جاتی ہے جب ایک سائکل والے کے پیچھے بھی گاڑیوں کی لمبی قطار لگ جاتی ہے ۔۔۔کوئی گاڑی سے سر باہر نکال کر گالی نہیں دیتا نہ ہی فٹ ہاتھ کا رستہ بتاتا ہے ۔۔۔حد ہے بھئی پیدل چلنے والوں کا حق بھی گاڑی والے سے زیادہ ہے۔۔۔ہمارے ہاں تو بس گاڑی ہونی چاہئے، سارے حقوق آپکے ۔۔۔اور تو اور یہاں کی گورنمنٹ کا حال بھی ملاحظہ کریں سال میں ایک دو ٹریفک حادثات کیا ہو گئے ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنا مشکل کردیا قوانین کی اتنی پابندی اُف ہم پاکستانی کہاں جائیں ارے بھئی دو چار ہزار میں کہیں سے بھی کسی کا بھی لائسنس بنوانے والی قوم کو پڑھنے ڈال دیا ۔۔۔۔ اور مجال ہے کسی چھوٹی سی سڑک پر بھی کوئی کھڈا رہنے دیں روز ہی کہیں نہ کہیں مرمت ہو رہی ہوتی ہے حد ہوتی ہے ویسے ۔۔۔۔ اور ایک ہماری حکومتیں ہیں ماشااللّہ روز بروز فرقہ وارانہ  فسادات بڑھتے جا رہے ہیں جس کی بھینٹ ہزاروں نئیں بلکہ لاکھوں افراد چڑھ چکے ہیں مجال ہے جو نظامِ تعلیم یا قوانین پر ایک نظر ڈال لیں ۔۔۔ضرورت بھی کیا ہے بھئی یہی وہ کامیاب ہتھیار ہے جو بوقتِ ضرورت مخالفین کا صفایا کرنے کے کام آتا ہے اور ویسے بھی اتنی تو آبادی بڑھتی جا رہی ہے دنیا کی اور اس آبادی کی پولوشن کو ختم کرنے میں پاکستان سب سے اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔۔۔۔بھوک ، بم دھماکوں ، ٹارگٹ کلنگ اور اور توہین کے مجرموں کو جلانے کے ساتھ ساتھ سڑکوں کی ابتر حالت اور ٹریفک قوانین کی نہیں بلکہ ٹریفک پولیس کی جیب گرم کرنے کی وجہ سے ہزاروں لوگ جو سڑکوں پر مارے جاتے ہیں یہ باقی دنیا پر ایک احسانِ عظیم ہی تو ہے
میں صدقے قربان میرا سوہنا پاکستان "

Friday 31 October 2014

سچا واقعہ

ہمارے ساتھ ایک مسلۂ ہے کہ ہم جب بھی کسی کالے کو دیکھتے ہیں بس ایک ہی بات ذہن میں آتی ہے کہ --->> "افریقی "  اور اگر مسلم کا خیال آئے تو ذہن میں فوراً خیال آتا ہے کہ "پاکستانی " ارے بھئی غلط کیا ہے دنیا میں ایک ہی تو ملک ہے جو خالصتاً اسلام کے نام پر بنا تھا اور لگتا ہے اسلام کے نام پر ہی ۔۔۔۔اللہ نہ کرے پتہ نہیں کیا کیا ذہن میں آجاتا ہے ۔۔۔بس جی کیا کریں ۔۔۔۔جس قدر اسلام کی روز خدمت ہو رہی ہے پاکستان میں۔۔۔۔ مجھے لگتا ہے بچوں کو اگر پیدا ہونے کی آپشن دی جائے تو وہ پاکستان میں پیدا ہونے سے انکار کردیں وجہ آپ جانتے ہیں ۔۔۔ارے بھئی میں تو آپ کو ایک واقعہ سنانے لگی تھی کہاں الجھ گئی ، ہوا یوں کہ ایک نائیجرین  مسلم خاتون سے ایک کلینک پر ملاقات ہوئی اُس کے سکارف سے اندازہ ہوا کہ وہ مسلم ہے میں نے جھٹ سے سلام کہ دیا اور وہ شائد پکی مسلمان نہیں تھی اس لئے میرا فرقہ پوچھے بغیر ہی جواب میں وعلیکم اسلام کہ دیا ۔۔۔پھر تھوڑی دیر بعد مجھ سے پوچھنے لگی کیا تم انڈین ہو خاکسار نے عرض کیا نہیں پاکستانی ہو ں ۔۔۔کہنے لگی اچھا میں بھی حیران تھی کہ انڈیا میں بھی مسلمان ہوتے ہیں ؟؟ تم مجھے انڈین لگ رہی ہو میں انڈین ڈرامے دیکھتی ہوں ۔۔
خاکسار نے بتایا کہ ہاں ہم لوگ تقریباً ایک ہی جیسے ہیں ۔۔۔اور انڈیا میں بھی مسلمان رہتے ہیں اور بہت بڑی تعداد میں ہیں ۔۔تو اُس نے حیرت سے سوال کیا اچھا ؟؟ لیکن وہ اپنے ڈراموں اور فلموں میں زیادہ تر اپنے مذہب کے بارے میں ہی تبلیغ کرتے ہیں ۔۔۔کبھی  مسلمانوں کے بارے میں ڈرامے نہیں بناتے ۔۔
میں نے عرض کیا بناتے تو ہیں لیکن بہت کم ۔۔۔پھر اُس نے ایک ایسا سوال کیا کہ میں چونک کر رہ گئی اور پھر میں نے شکر کیا کہ وہ پاکستان کبھی نہیں آئی نہ ہی پاکستانی ڈرامے دیکھتی ہے ۔۔۔کیوںکہ اسلام کی جو دُرگت ہم بناتے ہیں تو وہ شائد حیرت سے مر ہی جاتی یا اُس کی حیرت پر وہ مار دی جاتی  
اُس نے شدید حیرت سے پوچھا، اچھا!!! وہ جو سر پر رومال باندھ کرمرد اور دوپٹہ اوڑھے خاتون کو دکھاتے ہیں وہ مسلمان ہوتے ہیں ؟؟لیکن وہ جب کوئی دعا مانگنی ہوتی ہے یا نماز پڑھنی ہوتی ہے تو مسجد کیوں نہیں جاتے ؟؟ کسی مزار پر کیوں جاتے ہیں وہ کیسے مسلمان ہیں جو خدا کے آگے نہیں جھکتےبلکہ قبروں پر جا کر دعائیں کرتے ہیں ؟؟یہ کیسا اسلام ہے؟؟  یہ تو شرک ہے ؟؟؟؟

Friday 20 June 2014

میری بستی

میری بستی
یا اللہ یہ جہاز کیوں نہیں آرہا؟ لاہورائیرپورٹ پر بار بار ٹائم دیکھتے ہوئے میں یہی سوچتی جا رہی تھی،اس کے علاوہ میں کچھ اور سوچنا بھی نہں چاہ رہی تھی۔ بس جلد از جلد اِس ملک سے نکل جانا چاہتی تھی۔جہاں سکون کا ایک پل بھی نصیب نہیں تھا۔بچے سکول جائیں تو بے چینی،جِن گلیوں میں آدھی آدھی رات تک کھیل کر ہمارا بچپن گزرا تھا انہیں گلیوں میں دن کو بھی بچوں کو نکلنے نہیں دے سکتے تھے
نہ بجلی نہ پانی، نہ دن کو سکون نہ رات کو آرام ۔ ٹی وی لگاؤ تو بے سکونی میں اضافہ، میرا پانچ سالہ بیٹا کہتا " آپ لوگوں نے کام ہی پکڑ لیا ہے ٹی وی لگا لیتی ہیں اور رونا شروع کر دیتی ہیں۔ "پر ہم کریں بھی تو کیا کریں کبھی دہشت گرد حملے کبھی قدرتی آفات سے مرنے کی خبریں اور اُن سب سے بڑھ کر محض اپنے عقائد کی بنا پر سرِعام ظلم اور قتل اور اور۔۔۔۔۔۔
میں ان سب سے دور جانا چاہتی تھی جلد از جلد ،اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے سکون کے لئے اِس قتل و خون سے دور جہاں خود کو مسلمان کہیں اور آزاد بھی رہیں ۔۔۔ایک خوبصورت آزاد زندگی گزارنے کے لئے۔۔۔۔
اُف یہ جہاز کواتنی دیر کیوں ہو رہی ہے؟؟بھائی  سے پوچھا تو پتا چلا کہ ابھی ٹائم ہی نہیں ہوا ۔۔۔میں پھر سوچوں میں کھو گئ۔۔۔۔ یہ میرا ملک ہے میری دھرتی ماں اس کے لئے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دی ہیں پر۔۔
گلستاں کو لہو کی ضرورت پڑی سب سےپہلے ہی گردن ہماری کٹی
پھر بھی کہتے ہیں مجھ سے یہ اہلِ چمن یہ چمن ہے ہمارا تمھارا نہیں
اُف۔۔۔۔نہیں نہیں یہ اب میرا ملک نہیں ابھی کچھ دن پہلے ہی تو ہمارے اتنے پیارے یہاں بے دردی سے شہید کئے گئے تھے۔۔۔۔۔{یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے} میں ایک بار بس یہاں سے نکل جاؤں پھر کبھی لوٹ کر نہیں آؤں گی،مجھے بلکل یاد بھی نہیں آئے گا بس جلدی سے میں ایک بار جہاز میں بیٹھ جاؤں تو سکون ہو۔۔۔۔
ابھی تھوڑی دیر پہلے تقریباً سارا محلہ ہمارے گھر جمع تھا لوگ آنسو بھری آنکھوں سے ہمیں الوداع کرنے آئے تھے،وہاں رہتے ہوئے ہمارے خاندان کو تقریباْ 40 سال ہو گئے تھے ابھی 2سال قبل ہی تو نیا گھر بنایا تھا جس کا ایک ایک کونہ میں نے اپنے ہاتھ سے سجایا تھا آہ میرا گھر۔۔۔
نہیں نہیں مجھے کچھ نہیں سوچنا اللہ تعالٰی اس سے بھی اچھا گھر دے گا انشاءاللہ
آخر خدا خدا کر کے ہماری فلائٹ کا ٹائم ہو گیا،سامان بچے سب کو سیٹ کیا اور اپنی سیٹ سنبھالی اور سکون کا سانس لیا،میری سیٹ کھڑکی کے ساتھ تھی جہاز فضا میں بلند ہوا لاہور کے اوپر گھوم کر چکر لگایا اور مجھے پتا بھی نہیں چلا کے کب آنکھوں سے آنسو بہے کیوں بہے اور میرا دل ۔۔۔۔اُف۔۔۔ یہ پہلی فلائٹ کا خوف نہیں تھا یہ میرے وطن کی محبت تھی کہ میرا دل وہیں رہ گیا میرا سکون کہیں کھو گیا۔۔۔
اب یہاں ہر طرح کا سکون ہے آرام ہے کوئی ڈر نہیں ۔۔۔۔پر آج بھی پاکستان کی خبریں دیکھتے اورسنتے ہیں اور پہلے سے زیادہ روتے ہیں۔۔۔۔
میں کیا کروں کس کس کا درد بھلاؤں ؟کس کس کا نوحہ لکھوں؟ تھر میں بھوک سے تڑپ تڑپ کر جان دینے والوں کا یا فٹ پاتھ پر کیڑے مکوڑوں کی طرح پلنے والی روحوں کا؟ میں کیا کروں تھر کی ماؤں کی سسکیاں مجھے سونے نہیں دیتیں۔میں کیا کروں میرے ملک کے روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے لاکھوں یتیم مجھے سکون کی سانس نہیں لینے دیتے کہ میں کس دہشت گرد کو موردِالزام ٹھرا کر سکون حاصل کروں؟میرے ملک کی میری پاک سر زمین کی بےبس آہیں مجھے ہر پل بے چین رکھتی ہیں میرے پاک ملک کے ناپاک ناخداؤ! وہ بے حسی کی گولی کہاں سے ملتی ہے ؟جو تمھیں گھٹی میں ملتی ہے؟
سال میں ایک دفعہ یومِ عمر منا کر اور عید میلادالنبی کا جلوس نکال کر سڑکوں پر لڑکے اور لڑکیوں کی دھمال ڈلوا کر یا ذاتی دشمنی نکالنے کے لئے کسی پر بھی توہین کا مقدمہ بنوا کر ہر دوسرے پر کفر کا فتویٰ لگا کریہ کس اسلام کی خدمت کر رہے ہو؟
وہ سیدنا عمر جن کو راتوں کو نیند نہیں آتی تھی کہ فرات کہ کنارے کوئی بکری کا بچہ بھی بھوک سے نہ مر جائے۔۔۔۔اُن صحابہ کی ناموس کی حفاظت کے نام پر کتنے بے گناہوں کا خون بہاؤ گے؟
یہ کیسی خدمتِ اسلام ہےیہ کیسی رسول اللہ سے اورصحابہْ رسول سے محبت ہے؟کہ اُنہیں کی ناموس کی حفاظت کے نام پر لاکھوں لوگ مارے جا رہے ہیں اور تم لوگ محض ایک مذمتی بیان ٹی وی پر چلاتے ہو اور سکون سے سو جاتے ہو۔ تم لوگ توہینِ اسلام کے بلکہ توہینِ انسانیت کا اصل مجرم ہو۔۔۔۔
ڈرو اُس دن سے جب کوئی آئین کی شق اور کوئی کرسی تمھیں بچا نہیں سکے گی کہ وہاں کسی کو اثتثنا حاصل نہیں۔۔۔
میرا بچپن جہاں گزرا وہ بستی چھن گئی کیونکر
میری بستی میری خوابوں کی بستی بن گئی کیونکر


Friday 6 June 2014

کچھ لفظ !
تیروں کی مانند ہوتے ہیں،
سیدھا سینے کے پار جاتے ہیں 
کہ سانس لینا بھی دشوار ہو جائے
کبھی سکوت!
ہاں سکوت بھی کبھی
بہت ہی شور کرتا ہے  
ایسی ہلچل مچاتا ہے
کہ نیندیں روٹھ جاتی ہیں
کچھ اظہار ناگوار ہوتے ہیں
کہ کاش کچھ کہا نہ ہوتا 
کاش چپ رہے ہوتے
اور کبھی چپ !
ہاں کسی کی چپ مار ہی دیتی ہے
کچھ تو کہا ہوتا
کچھ تو سنا ہوتا
کبھی اعتبار گناہ ہو جاتا ہے 
کہ کاش کسی پہ کیا نہ ہوتا
اور کبھی 
بے اعتباری عذاب ہو جاتی ہے 
اُف کیوں ہم اس قدر بے اعتبار ٹھہرے 
اے مرے محسن
اے مرے چارہ گر
مجھے اس عذاب سے نجات دے دے

Monday 26 May 2014

مئ ماہِ وفا

مئ  ماہِ وفا

آج ایک اور احمدی شہادت کا رتبہ پا گیا۔ تو میرے ذہن میں مئ کے مہینہ میں ہی گزرنے والے 
ایک سانحے کی یادیں تازہ ہو گئیں۔
پاک مٹی سے بنے ہوئے وہ پاک خو تھے
نما زِ جمعہ کو آئے تھے وہ با وُضوتھے
یہ 28مئِ 2010 جمعہ کا دن تھاجب ہماری 2مساجد میں دہشت گردوں نے حملہ کر کے 100 کے قریب ہمارے پیاروں کو شہید کر دیا۔ خاکسار نے رات کو ہی ڈیوٹی کے لئے درخواست دے دی تھی۔۔شہیدوں کے قافلے کے ساتھ آنے والوں کو پانی پلانے کی ڈیوٹی ۔ساری رات آنکھوں میں کٹی یہی سوچتی رہی کہ میرے تو اپنے آنسو خشک نہیں ہو رہے تو اُن یتیموں اور بیوائوں کی دلجوئی کیسے کر پائوں گی۔صبح گھر سے نکلی تو پورا شہر سوگوار تھا سڑکیں سنسان دکانیں بند کوئی رکشہ والا بھی نظر نہیں آ رہا تھا،یوں لگتا تھا کہ ہر گھر میں جنازہ رکھا ہے۔
ایوانِ محمود پہنچی تو وہاں نقشہ ہی اور تھا۔معلوم ہوا شہیدوں کے قافلے رات سے ہی آنا شروع ہو چُکے تھے ہم نے پانی کی بوتلین سمبھالیں اور ارد گرد نظر دوڑائی مرد عورتیں اور بچے بھی تھے مگر سب پُرسکون،حوصلے میں۔۔۔
اُس وقت ہمیں اُن میں سے کسی کے بارے میں تفصیل معلوم نہیں تھی صرف یہ علم تھا کہ پاک مٹی سے بنے پاک وجودوں کی روحیں سالارِقافلہ {امیر جماعت لاہور} کے ساتھ جنت کے سفر کو روانہ ہو چکی ہیں اور ہم نے اُن کے پاک وجودوں کو عزت واحترام کے ساتھ آخری آرام گاہ تک پہنچانے والوں کی مدد کرنی ہے اور اُن کےپیاروں کو حوصلہ  دینا ہے لیکن یہاں تو معاملہ ہی اُلٹ تھا،ہم جِس کو بھی پانی پلاتے ہوئے کندھے پر ہاتھ رکھتے وہ ہمیں دلاسا دیتی ہوئی نظروں سے دیکھتے اور ہم دل ہی دل میں اپنی آنکھوں میں چھپے آنسوئوں پر شرمندہ ۔
ایک خاتون دونوں ہا تھ جوڑے اپنے ربّ سے کچھ رازو نیاز کر رہی تھیں قریب جا کر معلوم ہوا کہ اُن کے دو جوان بیٹے شہید ہوئے ہیں اور وہ ۔ وہ اپنے خدا سے شکوہ نہیں کر رہی تھیں بلکہ دونوں ہاتھ جوڑے خدا تعالٰی سے التجا کر رہی تھیں"یا اللہ ہماری قُربانیوں کو قبول فرما"اور یہ حال سب کا تھا۔وہاں موجود سب لوگ خاموشی اور حوصلے سے درود شریف اور دعائوں میں مصروف تھے۔نہ کوئی کسی کو حوصلہ دے رہا تھا نا ہی کسی کے گلے لگ کر بین کر رہا تھا۔خدا گواہ ہے کہ اِس میں کوئی مبالغہ آمیزی نہیں ہے۔
خدا تعالٰی کی محبت اور محض فضل تھا کہ ہر دل کو خدا تعالٰی کی محبت نے اپنے حصار میں لیا ہوا تھا۔جو قافلہ آتا ہم اُن کو کرسیاں پیش کرتے پانی پلاتے اور دیکھتے کہ شائد کسی کو کچھ کہنا ہو کسی کو کوئی ضرورت ہو مگر وہاں تو صرف پرسکون خاموشی اور دعائیں ۔
وہ سب لوگ الگ الگ جگہوں سے تھے الگ الگ خاندان اُن کی ذاتیں بھی الگ تھیں اور سوشل سٹیٹس بھی الگ ،لیکن اُن سب کا صبر اور حوصلہ ایک جیسا تھا کیونکہ وہ سب خلافت کی چھائوں کے نیچے ایک جان تھےاحمدی تھے
تھوڑی تھوڑی دیر بعد اعلان ہوتا جنازوں کے لیئے نام بتائے جاتے اُن کے لواحقین جا کر آخری دیدار کرتے پھر جنازہ پڑھا جاتا پھر جو دُلہا اپنے آخری سفر کے لیئے تیّار ہو جاتا اُس کے پیارے اُس کے ساتھ روانہ ہو جاتے پھر اگلا قافلہ۔۔۔
اور یہ سب کچھ خاموشی سے سکون سے انجام پذیر ہو رہا تھا۔ وہاں بہت سے ایمان افروز واقعات بھی ہوئے ۔ نا صرف ربوہ کے باسیوں نیں بلکہ ربوہ کی ہوائوں نے بھی ایک ایک مٹھی مٹی ڈالنے کی توفیق پائی ۔خاکسار کی یہ بات وہ ہی سمجھ سکتے ہیں جو وہاں موجود تھے
ایک واقعہ جو خاکسار کی یاد داشت میں ابھی بھی محفوظ ہے ؛ ایک ایسے خاندان جو احمدی نہیں تھے اُن کا بیٹا جو کچھ عرصہ قبل احمدی ہوا تھا اور اُس وقت جب مسجد میں گولیاں چل رہی تھیں گھر فون کر کے کہا تھا کہ مجھے کچھ ہو گیا تو مجھے ربوہ ہی لے کر جا نا{ اُس وقت خاکسار کو اس بات کا علم نہں تھا} تو واقعہ یوں ہے کہ ایک مرد دو خواتین اور ایک لڑکی  اندر آئے مرد اُن کو حوصلہ دے رہا تھا کہ" فکر ناں کرو یہاں سب انتظام ہوگا ان کو سب پتا ہے "
مرد تو مردوں کی مخصوص جگہ پر تشریف لے گئے خاکسارنے خواتین کو کرسیاں پیش کیں پانی دیا ایک خاتون غم سے زیادہ نڈھال تھیں خاکسار نیں سوچا اِن کا بیٹا ہو گا شائد اور اُن کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا خاتون نے میری جانب دیکھا اور یوں گویا یوئیں " میرا بھانجا تھا ، پھر اُن خاتون کی طرف اشارہ کیا جو کافی حوصلے میں تھیں اور بولیں "اس کا بیٹا تھا ایک ہی بیٹا اور بیٹی ، ڈاکٹر بن رہا تھا ۔ خاکسار نے بے اختیار امڈ آنے والے آنسوئوں پر قابو پاتے ہوئے اُن خاتون کو دیکھا تو والدہ بڑے فخر سے بولیں "تین گولیاں کھائی ہیں سینہ پر" اور خاکسار کے لئے وہاں کھڑا رہنا ممکن نا رہا۔
تو آج جب کہ ہم سب پریشان ہیں آنکھوں سے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہےتو خاکسارکو تصور میں ڈاکٹر مہدی صاحب کے بچے اور بیوی اور خاندان کے باقی افراد حوصلے اور صبر سے بیٹھے نظر آ رہے ہیں۔  جو تعزیت کرنے آنے  والوں کو حوصلہ دے رہے ہیں۔۔۔
تو ظالم حکمرانوں اور نفرت کے اعلانات کرنے والے مولویو تم ہار گئے ناکام ہو گئے شہیدوں  کی بیوائوں اوریتیموں نے تمھیں ہرا دیا تم اِس دنیا میں بھی نا کام اور نامراد رہے اور آئندہ زندگی میں تو ناکامی تمھارا مقدر ہے ہی،تم اِس دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہو گے اور ہو رہے ہو اور آخرت میں بھی، کہ بہت سے بے گناہوں کا خون تمھارے سرہے۔
اللہ تعالیٰ کی پکڑ آ چکی ہے جو تمھیں ٹکڑے ٹکڑے کر رہی ہے اور جلد ہی وہ دن آنے والا ہے کہ وہ تمھیں پیس کر رکھ دے گااور توبہ کے تمام دروازے تم پر بند کر دیے جائیں گے یہ خدا کے پیارے کی دعائیں ہیں ۔ خدا کے پیارے کی آواز ہے اور خدا تعالیٰ کا وعدہ جو ضرور پورا ہو گا شہیدوں کا خون کبھی رائگاں نہیں جائے گا اور یہ ہمارا یقین ہے کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام ہی دنیا پر غالب آئے گا ۔اور تم لوگ جو دجّال کے حقیقی نمائندے ہو کہ تمھاری دائیں آنکھ یعنی دین کی آنکھ اندھی ہو چکی ہے اِس دنیا سے مٹا دئے جائو گے انشاءاللہ
کرو تیّاری ، بس اب آئی تمھاری باری
یوں ہی ایّام پھرا کرتے ہیں باری باری
ہم نے تو صبرو توکّل سے گزاری باری
ہاں مگر تم پہ بہت ہوگی یہ بھاری باری
کلامِ طاہر
                                                     


Friday 23 May 2014

no life with out Khalifa

اسلام علیکم 
یہ نظم پوسٹ کرنے سے پہلے خاکسار کچھ عرض کرنا چا ہتی ہے۔ یہ نظم خاکسار نے خلافت کی محبت کے شوق میں لکھ تو ڈالی مگر بہت ڈرتے ہوےَ کہ کہیں محبت کے جوش میں کوئ گستاخی نہ کر بیٹھوں۔ خاکسار کو اعتراف ہے کہ خاکسار شاعرانہ تکلفات سے نا بلد ہے اور جہاں قلم کا بانجھ پن ختم ہوا وہاں الفاظ نے ساتھ چھوڑ دیا۔ باقی سب باتیں اضافی ہیں  صرف ایک بات کہ : ہمیں خلافت سے عشق ہے۔

مجھ کو تو ہے  بس  تیری  ہی  دید کی  تڑپ
حسیں ہونگے ہزاروں،ہزاروں سے مجھےکیا

اک خواب تھا دیکھا کہ میرے سر پہ تیرا ہاتھ
کافی ہے یہ سہارا، سہاروں سے  مجھےکیا

دن گنتے ہیں روز کہ، کب آپ  پدھاریں؟
ہیں اپنی بہار آپ ، بہاروں سےمجھےکیا

ہے مجھ کوتڑپ دیکھوں تیری آمد کا نظارہ
ہیں اور بھی لیکن اُن،نظاروں سے مجھے کیا

مولا میرے ، رکھنا خلافت  کو سدا قائم
جب تیری شہادت ہےتو،شراروں سےمجھےکیا

Friday 16 May 2014

چلو سکھ کو عام کریں۔۔۔

چلو سکھ کو عام کریں۔۔۔

روز روز اِک نیا تماشا
ہر کسی کو بد نام کریں۔
جو چاہت کا اظہار کرے
اُس کو ہی دشنام کریں۔
اپنا دکُھ بس اپنا ہی غم
باقی سب کو بس پرنام کریں۔
جس سے ہمیں ہو کام کوئ
بس اُس کا ہی کام کریں
خون پسینہ کسی کا بہا ہو
ہم اپنا ہی نام کریں۔
ہمارا ہے ہر کام ہی اچھا
صبح کریں یا شام کریں۔
مومن تو بس ہم ہی ہیں
کفر کا فتویٰ عام کریں۔
یہ سب با تیں غلط ہیں توپھر
آوسب مل کر اک کام کریں۔
اک دوجے کے دکھ سکھ بانٹیں
پیار کو دنیا میں عام کریں۔
ایک ہے مالک سب کا داتا
اسی کا ذکر ہر گام کریں۔
حبیب ہمارا خدا کا پیارا 
درود اُس پر صبح شام پڑھیں۔
اِبلیس ہمارا ازل سے ہے دشمن
ہر حملہ اُس کانا کام کریں۔
سُکھ ہی سُکھ بس ہر پل بانٹیں
دُکھ کو کبھی نہ  عام کریں۔

Thursday 8 May 2014

پیارا خدا

خداایک پیارا خزانہ
خدا ایک پیارا خزانہ ہے
ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے
ہماری ا علی لذات ہمارے خدا میں ہیں
یہ الفاظ خدا کہ ایک بہت پیارے کے ہیں۔جن کو ہم سنتے اور سر دھنتے ہیں پر ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو کبھی ان الفاظ پر غور نہیں کرتے، اور کبھی اس  پیارے خزانے کو  تلاش کرنے کی کو شش نہیں کرتے ۔
دنیاوی  خزانوں کو حاصل کرنے کے لیئے ہم دن رات ایک کر دیتے ہیں مگر اصل خزانے کی طرف ہم دھیان ہی نہیں دیتے کہ وہ کتنا خوبصورت اور کتنی خوبصورتیاں اپنے اندر سمیٹے ہو ئے ہے ۔
فانی دنیا کے فائدے اور مزے بھی فانی ہیں اور ہمیں اصل سے بہت دور لے جاتے ہیں،جبکہ وہ کہتا ہے تم میری طرف ایک قدم بڑھائو میں تمہاری طرف دو قدم بڑھائوںگا۔تم میری طرف چل کر آئو میں تمھاری طرف دوڑ کر آئوں گا۔کتنا آسان ہے اس خزانے کو حاصل کرنا ،  مگر ہم اس دنیا کے پیچھے لگے ہوئے ہیں جس کی طرف اگر ہم دوڑ کر جائیں تو وہ دگنی رفتار سے ہمارے آگے دوڑتی ہے۔وہ دنیا جو اکژہمیں دکھوں کے جہنم کے سوا کچھ نہیں دیتی۔تو ہم اپنی بہشت چھوڑ کر جہنم کا انتخاب خود کرتے ہیں۔
دنیاوی مزوں میں سے آپ کو کوئی بھی مزا خواہ کتنا ہی پسند ہو اور کتنا ہی کھا لیں وہ تھوڑی دیر کے لئے ہی رہتا ہے پھر اس کا اثر ختم ہو جاتا ہے۔ایک ذائقہ ہے خدا کی محبت کا جس کو ایک دفعہ چکھ لیں اس کا اثر کبھی زائل نہیں ہوتا،
یہ بات صرف وہ ہی سمجھ سکتا ہے جس نےیہ مزا چکھا ہو۔
تو دوستو!اس بہشت کو،اس خزانے کو اور خدا تعالی کی محبت کو پانےکے لئے پہلے اپنےدل میں اس کی محبت پیدا کرنی ہو گی جس کے لئے ضرورت ہے اسی پیارے مہربان خدا سے دعائیں مانگنے کی ،اس کے احکامات پرعمل کرنےکی۔
تو پیار کریں خدا سے ،خدا کے پیاروں سے اور اسی سے مدد چاہیں۔
خدا تعالی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم اسی دنیا میں بہشت کے نظارے دیکھنے والے بنیں۔آمین


کیوں؟؟

کیوں؟
درد بے آواز کیوں ہوتا ہے؟
خواب نا رسا کیوں ہوتا ہے؟
خیال بے مہار کیوں ہوتا ہے؟
انسان با اختیار کب ہوتا ہے،
پھر بے اختیار کیوں ہوتا ہے؟
آگہی گناہ کیوں ہو جاتی ہے؟

محبتیں مکمل کیوں نہیں ہوتیں؟

منزل پر پہنچ کر بھی ۔۔
خواہشِ سفر کیوں نہیں جاتی؟؟؟


لکھنے کا قرض

لکھنے کا قرض

مجھے لکھنے کا حکم ہوا ہے!
تو سوچ رہی ہوں۔۔۔۔۔
کیا لکھوں؟؟
کیسے لکھوں؟؟
میرے دامن میں تو!!
چند مردہ خیالات کی بھٹکتی ہوئی روحیں،
کچھ بے جان لفظ جو کبھی لکھے نہ جا سکے،
کچھ بھٹکتے شعر جن کو پذیرائی نہ مل سکی۔۔۔
لکھوں تو کیسے لکھوں ؟
لکھوں تو کس کو لکھوں؟
کن ان لکھے الفاظ کا قرض پہلے ادا کروں؟
کہ سود بہت بڑھ گیا ہے۔
اور میرا قلم بانجھ ہے۔