ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک ملحد نے ایک بزرگ کو مناظرہ کا چیلنج کردیا اور لوگوں سے کہہ بھی دیا کہ یہ بزرگ نہیں آئیں گے ۔۔۔
وہ بزرگ جان بوجھ کر کچھ لیٹ ہوگئے جب پہنچے تو نوجوان نے پوچھا کیوں بزرگو ڈر گئے تھے جو اتنی دیر لگا دی بزرگ نے جواب میں کہا بیٹا میرے راستے میں ایک دریا پڑتا ہے میں وہاں پہنچا تو کوئی کشتی نہ تھی اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں کچھ لکڑیاں پڑی تھیں وہ آپس میں جڑنا شروع ہو گئیں اور آہستہ آہستہ ایک کشتی کی شکل اختیار کر گئیں بس اسی میں دیر ہوگئی ۔۔وہ ملحد بولا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں بغیر بڑھئی کے کشتی کیسے بن گئی تو بزرگ نے بڑی شفقت سے کہا میاں جب ایک کشتی بغیر کسی بنانے والے کے نہیں بن سکتی تو اتنی بڑی کائنات بغیر کسی خالق کے کیسے بن سکتی ہے جس پر وہ نوجوان لاجواب رہ گیا ۔۔یہ ایک بہت پرانا واقعہ ہے جب بھی کسی ملحد کو دیکھتی ہوں تو یاد آجاتا ہے مگر آج کل لوگوں کے سوال اور سوال کرنے کے انداز بھی بدل گئے ہیں اور جواباً لاجواب ہو بھی جائیں تو بھی مانتے نہیں ہٹ دھرمی پر اتر آتے ہیں بہت سے لوگ محض سوال کرتے ہیں لیکن جواب جاننا نہیں چاہتے اور بہت سے لوگوں کو تو میں نے دیکھا ہے کہ وہ فیشن کے طور پر خود کو ملحد کہتے ہیں حالانکہ دل میں کسی نہ کسی شکل میں خالق اور رازق رب پر یقین رکھتے ہیں ۔۔۔اسی طرح خاکسار کو ایک عزیز کا سنایا ہوا واقعہ یاد آگیا جو اُن کی آپ بیتی تھی انہوں نے مزے لے لے کر سنایا، کہتے ہیں کہ ۔۔۔
ایک دفعہ ایک شوقین مزاج دہریے سے میری بحث ہو گئی کہنے لگا کہ میں نہیں مانتا خدا ہے ۔۔۔میں نے اُس سے پوچھا کہ تمھارے والد کون ہیں؟ اُس نے نام بتایا ، میں نے پوچھا کہ تمھیں کیسے پتہ کہ وہی تمھارے والد ہیں یقیناً تمھاری والدہ نے بتایا ہوگا وہ چُپ رہا میں نے کہا کہ عورت کی گواہی آدھی ہوتی ہے اور اُس آدھی گواہی پر تم نے تسلیم کرلیا کہ تمھارا باپ وہی شخص ہے ۔۔،اور جب سے دنیا بنی ہے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی دنیا میں آئے اور پکار پکار کر دنیا کو بتا تے رہے کہ "خدا ہے ، خدا ہے" پھر تمھیں یقین کیوں نہیں آتا ؟؟
No comments:
Post a Comment